حیدرآباد ۔۱۵؍نومبر( پریس نوٹ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بعثت
شریف سے متعلق کتب سماویہ میں تذکرہ ایک نورانی حقیقت ہے جس پر قرآنی آیات
جلیلہ دلیل ہیں اسی طرح سرکار دو عالمؐ کا ارشاد مبارک ہے کہ میں حضرت
ابراہیمؑ کی دعا ہوں اور حضرت عیسیٰ ؑ کی بشارت ہوں۔ توریت کے علماء کو
ظہور قدسی سے متعلق خوب واقفیت تھی ان کے ہاں محفوظ اوراق قدیم میں حضور ؐ
کی جلوہ گری اور آپ کے اوصاف حمیدہ کی تفصیلات صراحتاً موجود تھیں جن کا
خلاصہ یہ ہے کہ ’’محمد رسول اللہؐ خاتم النبیین ہیں ان کی جاے ولادت مکہ
اور ان کا مقام ہجرت مدینہ ہے وہ اعلیٰ اخلاق والے اور نرم مزاج ہیں برائی
کا بدلہ بھلائی سے دینے والے اور عفو درگزر سے کام لینے والے ہیں‘‘۔ اس کے
ساتھ سرکار دوعالمؐ کی امت یعنی خیر الامم کے خصائل جمیلہ کا ذکر بھی موجود
تھا۔ ایسا ہی ایک ورق حضور اقدسؐ کے سامنے بھی پڑھا گیا تھا۔ احبار یہود
جو مشرف بہ ایمان ہو گئے انھوں نے متعدد مرتبہ ان حقائق کا برملا اظہار کیا
اور توریت میں بیان کردہ حقائق کو پیش کیا کہ حضور احمد مجتبیٰ صلی اللہ
علیہ و آلہ وسلم اور آپ کی امت بہت زیادہ حمد الٰہی میں مصروف رہنے والی ہے
جو مساعد اور نا مساعد ہر حال میں اللہ کی حمد کرے گی۔ ہر بلندی پر اللہ
کی کبریائی کا اقرار اور ہر پستی پر تسبیح بجا لاے گی ان کی اذانیں فضاء
آسمانی میں گونجیں گی ان میں ایسی نماز ہوگی کہ اگر وہ نماز قوم نوحؑ میں
ہوتی تو وہ طوفان سے ہلاک نہ ہوتی اور قوم عاد میں ہوتی تو وہ ہوا سے برباد
نہ ہوتی اورقوم ثمود میں ہوتی تو وہ چیخ سے ہلاک نہ ہوتے۔ علماء توریت کے
علاوہ قدیم علوم سے واقف لوگوں سے ان حقائق کو معلوم کر کے لوگوں سے بیان
کرنے والی ممتاز ہستیوں میں صحابی رسول مقبولؐ حضرت سلمہؓ بن سلامہ کا نام
نامی بھی ملتا ہے۔ان حقائق کے اظہار کے ساتھ ڈاکٹر سید محمد حمید الدین
شرفی ڈائریکٹر آئی ہرک نے آج صبح ۹ بجے ’’ایوان تاج العرفاء حمیدآباد‘‘
واقع شرفی چمن ،سبزی منڈی اور دو بجے دن جامع مسجد محبوب شاہی، مالاکنٹہ
روڈ،روبرو معظم جاہی مارکٹ میں اسلامک ہسٹری ریسرچ کونسل انڈیا (آئی ہرک)
کے زیر اہتمام منعقدہ ’۱۱۷۳‘ویں تاریخ اسلام اجلاس کے علی الترتیب پہلے
سیشن میں احوال انبیاء علیھم السلام کے تحت حضرت سلیمان علیہ السلام کے
مقدس حالات اوردوسرے سیشن میں ایک مہاجر ایک انصاری سلسلہ کے ضمن میں صحابی
رسول اللہؐ حضرت سلمہ بن سلامہؓ کے احوال شریف پر مبنی توسیعی لکچر دئیے۔
قرا ء ت کلام پاک، حمد باری تعالیٰ،نعت شہنشاہ کونین ؐ سے دونوں سیشنس کا
آغاز ہوا۔اہل علم حضرات اور باذوق سامعین کی کثیر تعداد موجود تھی۔جناب سید
محمد علی موسیٰ رضا حمیدی نے خیر مقدمی خطاب کیا۔ مولانا مفتی سید محمد
سیف
الدین حاکم حمیدی کامل نظامیہ و معاون ڈائریکٹر آئی ہرک نے ایک آیت
جلیلہ کا تفسیری مطالعاتی مواد پیش کیا۔پروفیسرسید محمد حسیب الدین حمیدی
جائنٹ ڈائریکٹر آئی ہرک نے ایک حدیث شریف کا تشریحی اور ایک فقہی مسئلہ کا
توضیحی مطالعاتی مواد پیش کیا بعدہٗ انھوں نے انگلش لکچر سیریز کے ضمن میں
حیات طیبہؐ کے مقدس موضوع پراپنا ’۹۰۹‘ واں سلسلہ وار لکچر دیا۔ڈاکٹر حمید
الدین شرفی نے سلسلہ کلام کو جاری رکھتے ہوے بتایا کہ حضرت سلمہؓ بن سلامہ
فرماتے ہیں کہ ہمارے ہمسایہ میں خاندان عبد الاشہل کا ایک یہود رہا کرتا
تھا ایک دن وہ ہمارے پاس آیا اور اس نے بعثت، قیامت، میزان، جنت اور دوزخ
کا ذکر کیا۔ وہاں موجود مشرکین نے اس کا مذاق اڑایا اس شخص نے لوگوں کے
تمسخر کی پروا نہ کی اور کہا قسم خدا کی ایسا ہے۔ لوگوں نے پوچھا اس کی کیا
نشانی ہے اس نے جواب دیا ایک نبی ان شہروں کی طرف مبعوث ہوں گے اور اس نے
مکہ کی طرف اشارہ کیا۔ حضرت سلمہؓ کہتے ہیں کہ اس وقت میں بہت چھوٹا تھا۔
عقبہ اولیٰ میں شرکت کا محرک یہی واقعہ بنا۔ حضرت سلمہؓ مشرف بہ اسلام ہوے
عقبہ اولیٰ و ثانیہ میں ان کی شرکت پر ارباب سیر کا اتفاق ہے۔ڈاکٹر حمید
الدین شرفی نے بتایا کہ حضرت سلمہؓ بن سلامہ انصار مدینہ میں ممتاز اور
نمایاں تھے شجرہ نسب یوں ملتا ہے سلمہؓ بن سلامہ بن وقش بن زغبہ بن زعواء
بن عبد الاشہل۔ ان کی والدہ سلمیٰ بنت سلمہ بن خالد تھیں۔ حضرت سلمہؓ کی
کنیت ابو عوف مشہور ہے انھیں رسول اللہؐ کے ہمراہ تمام غزوات و مشاہد میں
حصہ لینے کا شرف حاصل ہوا۔ حضرت سلمہؓ بہت ساری خصوصیات سے متصف تھے آپ
نہایت جری ،بہادر، واقف فنون حرب تھے۔ علم و فضل میں بھی بڑا رتبہ تھا۔
انتظامی صلاحیتیں خداداد تھیں یہی وجہ ہے کہ حضرت امیر المومنین عمر بن
خطابؓ کی جوہر شناس نگاہ نے یمامہ کی امارت و انتظام کے لئے حضرت سلمہؓ بن
سلامہ اور آپ کے بھائی کا انتخاب کیا۔ حضرت سلمہؓ نے اپنی مفوضہ ذمہ داریوں
کو کما حقہٗ پورا کیا۔ وہ عہد رسالتؐ اور خلفاء راشدین کے ادوار میں دین
حق اسلام کی مخلصانہ خدمت اور مسلمانوں کی خیر خواہی میں مشغول و منہمک
رہے۔ خوف خداوندی سے ہمیشہ لرزاں رہا کرتے زہد و تقویٰ، عبادت و ریاضت، ذکر
وفکر میں اپنے معاصرین کے معمولات کے موافق تھے۔ ان سے چند احادیث بھی
مروی ہیں۔ حضرت سلمہؓ بن سلامہ نے طویل عمر پائی۔ سن مبارک ستر سال ہوا۔ بہ
اختلاف روایات ۳۴ھ یا ۴۵ھ میں وفات پائی۔اجلاس کے اختتام سے قبل بارگاہ
رسالت پناہیؐ میں سلام تاج العرفاءؒ پیش کیا گیا ذکر جہری اور دعاے
سلامتی پر آئی ہرک کا’’۱۱۷۳‘‘ واں تاریخ اسلام اجلاس تکمیل پذیر ہوا۔الحاج
محمد یوسف حمیدی نے ابتداء میں تعارفی کلمات کہے اور آخر میں جناب مظہر
اکرام حمیدی نے شکریہ ادا کیا۔